Pakistan Affairs
4 min readDec 10, 2019

اسلامک بینکنگ، ایک کامیاب ماڈل

گزشتہ دنوں اسلامک بینکنگ پر انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کے زیر اہتمام چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کیلئے اسلامک بینکنگ کی ضرورت پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ملک کے ممتاز اسکالرز، بینکرز، معیشت دان اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ (IBM) کے ریکٹر، فیکلٹی ممبرز اور ایم بی اے کے طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں پریزنٹیشن دینے کیلئے مدعو کیا گیا تھا حالانکہ اس دن صبح نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے 100 سے زائد اعلیٰ فوجی افسران میجر جنرل عنایت کی سربراہی میں فیڈریشن آئے تھے جس میں انہوں نے ملکی معیشت پر تفصیلی گفتگو کی جو اُن کے وار کورس کا حصہ تھی جس کے بعد میں نے اسلامک بینکنگ کانفرنس میں اپنی پریزنٹیشن دی جو نذر قارئین ہے۔

یہ جاننے کے بعد کہ سودی بینکاری اور کاروبار اللہ تعالیٰ سے جنگ ہے، میں نے اپنے دوست یو ایس ایپرل کے جاوید بھٹی کے مشورے پر سودی نظام سے نجات حاصل کر لی ہے جس سے مجھے کاروبار میں برکت کے علاوہ زندگی میں سکون حاصل ہوا ہے۔ اسلامی بینکاری جسے غیر سودی مالیاتی نظام کہا جاتا ہے، پاکستان سمیت دنیا میں نہایت تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ ملائیشیا، سعودی عرب اور مصر میں غیر سودی اداروں کی تحریک چلی جو بعد میں اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کے قیام کی وجہ بنی۔ 1975 سے 1990 تک اسلامی بینکاری کا سفر کچھ اس طرح ہے کہ 70 اور 80 کی دہائی میں اسلامک بینکنگ اکائونٹ کھولنا، رقم کی منتقلی اور لوگوں کو اسلامی سرمایہ کاری و تجارت کیلئے مشورے دینا شامل تھا۔ 1980 سے 1990 کے دوران اسلامی بینکنگ میں میوچل فنڈز، تکافل اور اسلامک بونڈز جاری کئے گئے جبکہ 1990 سے 2010 کے دوران اسلامک بینکنگ کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا اور وینچر کیپیٹل، مائیکرو فنانس، پروجیکٹ فنانس، ایکویٹی فنانس، رئیل اسٹیٹ، کموڈٹی مارکیٹ اور کارپوریٹ بینکنگ جیسی سرگرمیاں عمل میں آئیں۔

آج اسلامی بینکاری کا دخل مالیات کے ہر شعبہ میں ہے۔ دنیا کے ہر بڑے بینک نے اسلامی بینکاری کا علیحدہ شعبہ قائم کر رکھا ہے۔ ملائیشیا نے اپنے یہاں اسلامی اور غیر اسلامی دونوں نظام معیشت رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا میں اسلامک بینکنگ کی گروتھ کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غیر سودی نظام دنیا میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ دنیا کے 56 ممالک میں اسلامک بینکنگ کی گروتھ پر اسلامک فنانس ڈویلپمنٹ رپورٹ 2018 کے مطابق اسلامک فنانس انڈسٹری دنیا میں 11 فیصد گروتھ کے ساتھ 2.4 کھرب ڈالر کے اثاثوں تک پہنچ گئی ہے۔ 70 سے زائد ممالک میں 90 اسلامک بینکوں کی 1200 سے زائد برانچیں، مضاربہ اور میوچل فنڈز قائم ہیں۔ دنیا میں اسلامک بینکنگ کی مجموعی مالیت 16.3 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ دنیا کے 131 ممالک میں اسلامک بینکاری میں ایران پہلے نمبر پر، ملائیشیا دوسرے، سعودی عرب تیسرے اور پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں اسلامک بینکاری کا نظام 1980 میں شروع ہوا اور آج موجودہ بینکاری نظام میں اسلامک بینکنگ کا حصہ 15 فیصد ہے۔

اس وقت ملک میں 6 اسلامک بینک ہیں جن کی ملک بھر میں 200 سے زائد شاخیں کام کر رہی ہیں جن کے مجموعی اثاثے 2.8 کھرب روپے اور ڈپازٹس 2.2 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامک بینکنگ میں ایس ایم ایز، ایگریکلچرل، ایکسپورٹ اور مائیکرو فنانسنگ میں نئے پروڈکٹس متعارف کرائے جائیں کیونکہ غریب کاشتکار اب بھی مڈل مین سے 30 سے 35 فیصد شرح سود پر فصل گروی رکھوا کر قرضے لے رہا ہے اور اس کی تمام آمدنی قرضوں اور سود کی ادائیگی میں ختم ہو جاتی ہے۔ میں نے مائیکرو فنانس کے تحت چھوٹے قرضوں کیلئے بنگلہ دیش کے شریعہ اصولوں پر قائم گرامین بینک کا حوالہ دیا جس میں 5 لوگوں کے گروپ کو ایک دوسرے کی گارنٹی دینے پر قرضے دیئے جاتے ہیں جو نہایت کامیاب ہے جبکہ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں مائیکرو فنانس کے ماڈل ’’ویلیج بینک‘‘ میں 30 سے 35 افراد کے گروپ کو آپس کی ضمانت پر قرضے دیئے جاتے ہیں۔

مائیکرو فنانس کا تیسرا ماڈل کریڈٹ یونین ہے جو ایشیا اور سری لنکا میں مقبول ہے جبکہ انڈونیشیا میں اسے ’’بیت المال‘‘ کہا جاتا ہے۔ مائیکرو فنانس کا چوتھا ماڈل سیلف ہیلپ گروپ ہے جو بھارت میں مقبول ہے جس میں 10 سے 15 افراد اپنی جمع پونجی آپس میں جمع کر کے مشترکہ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ میں نے اس بات پر زور دیا کہ اسٹیٹ بینک چھوٹے درجے کی صنعتوں کیلئے اسلامک بینکوں کو فنانسنگ کے اہداف دے تاکہ ایس ایم ایز کو فروغ دیا جا سکے۔ میرا یہ ذاتی مشاہدہ ہے کہ میرے وہ تمام بزنس مین دوست جنہوں نے سودی بینکاری سے نجات حاصل کر کے اسلامی بینکاری نظام اپنایا ہے، اللہ تعالیٰ نے اُن کے رزق اور کاروبار میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ خیر وبرکت عطا فرمائی ہے۔ قارئین سے میری درخواست ہے کہ وہ روایتی سودی بینکاری نظام سے جلد از جلد نجات حاصل کر کے اسلامک بینکاری نظام اپنائیں کیونکہ یہ انصاف اور برابری کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہے جبکہ اسکے برعکس سودی بینکاری کے سبب آج امریکہ، یورپ اور یونان جیسے ممالک مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ اگر آج آپ نے اسلامک بینکاری نظام اپنا لیا تو اللہ تعالیٰ نہ صرف آپ کے رزق میں خیر و برکت عطا فرمائے گا بلکہ آپ کا یہ عمل اللہ اور رسولﷺ کی خوشنودی کا سبب بھی بنے گا۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

بشکریہ روزنامہ جنگ

Pakistan Affairs
Pakistan Affairs

Written by Pakistan Affairs

Find news, multimedia, reviews and opinion on Pakistan, politics, sports, economy, travel, books, education, …

No responses yet