اعلیٰ ملازمتوں میں میرٹ کا قتل جاری
پہلے تو ایک اچھی خبر ملی، بونیر سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب لوح و قلم سے، تعلق جماعت اسلامی سے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کے پی میں اب نوکریاں میرٹ پر بغیر کسی سفارش کے مل رہی ہیں۔ وہ اپنا عملی تجربہ بتارہے ہیں کہ ان کی صاحبزادی نے اسکول ٹیچر کے لئے درخواست دی۔ تمام ضروری کاغذات منسلک کر کے ڈاک سے متعلقہ پتے پر بھیج دیے۔ کچھ دنوں بعد ان کی تقرری کا خط آگیا۔ کسی سے کہنا پڑا نہ کسی نے کوئی رشوت مانگی۔ اب وہ پاکستانی بیٹی اسکول جارہی ہے، پڑھا رہی ہے۔ بہت خوشی ہوئی کہ تبدیلی آگئی ہے۔ سندھ میں تو روز یہی خبریں سنتے ہیں کہ نوکریاں اتنے ہزار میں بک رہی ہیں۔ کوئی سننے والا نہیں لیکن کچھ دنوں بعد ہمارے بہت ہی قریبی عزیز نوجوان واہ سے آئے جو کے پی کی سرحد پر واقع ہے۔ دونوں بھائیوں نے انجینئرنگ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ بہت سے متعلقہ تربیتی کورسز بھی کیے ہیں۔ دونوں کو کمپیوٹر پر نئی نئی باتیں اور نئے طریقے سیکھنے کا شوق بھی ہے۔ وہ کئی سال سے نوکری کی تلاش میں اخبارات دیکھ رہے ہیں۔
آن لائن نوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں۔ اپنے ڈاکومنٹ بھیج رہے ہیں۔ ایک طرف میں ان کی پیشانی پر تابندہ عزائم بھی دیکھ رہا ہوں۔ دوسری طرف ان کی آنکھوں سے جھلکتی مایوسی سے پریشان بھی ہو رہا ہوں۔ ہوتا کیا ہے کہ وہ تحریری امتحان بھی اچھے نمبروں سے پاس کر لیتے ہیں۔ شارٹ لسٹ میں بھی آجاتے ہیں۔ زبانی انٹرویو بھی بہت تسلی بخش ہوتا ہے۔ اس میں بھی وہ سر فہرست ہوتے ہیں لیکن تقرری کا پروانہ انہیں نہیں ملتا ۔ کوئی جواب دینے کو بھی تیار نہیں ہوتا کہ انہیں نوکری کیوں نہیں دی گئی۔ انہیں یاد آتا ہے کہ امیدواروں میں دو نوجوان ایسے تھے جو دیگر نوجوانوں سے مل بھی نہیں رہے تھے۔ الگ تھلگ بیٹھے تھے۔ بہت پُرامید۔ پُر اعتماد۔ معلوم ہوا کہ نوکری کی شہزادی ان کے حصّے میں ہی آئی۔ تحریری امتحان میں بھی وہ بہت پیچھے تھے۔ زبانی انٹرویو میں بھی۔
میرے از حد قریبی عزیز نوجوانوں کو یہ تلخ اور مایوس کن تجربات گزشتہ پانچ سال سے ہو رہے ہیں۔ اب ان دونوں کو ایک سرکاری محکمے نے کراچی میں تحریری امتحان اور زبانی انٹرویو کے لئے بلایا ہے۔ اس میں بھی وہ کامیاب رہے ہیں لیکن وہ اب بھی آس اور یاس کی شاخ پر لٹکے ہوئے ہیں۔ اپنے شہر سے دوسرے شہر اپنے خرچ پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ اپنے طور پر ٹھہرنا ہوتا ہے۔ یہ ساری کوششیں اور کاوشیں اپنی جگہ۔ مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ عمران حکومت بھی نوجوانوں کے لئے میرٹ پر روزگار کی فراہمی میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکی ۔ ایک صاحب نے سوشل میڈیا پر اپنی ذاتی داستان بیان کی ہے۔ انہیں بھی ایسی ہی مایوسیوں اور پسپائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ہر ناکامی پر بھرپور تحقیق کی، متعلقہ محکمے میں سوال جواب کیے۔ گوگل سے مدد لی تو وہ بار بار اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے تحریری ٹیسٹ اور زبانی انٹرویو میں سر فہرست آنے کے باوجود جن نوجوانوں کو نوکریاں ملتی رہی ہیں، وہ تعلیمی اعتبار سے اُن کے برابر نہیں تھے لیکن ان کا کھونٹا بہت مضبوط تھا۔ ان کی تجویز یہ ہے کہ یہ تقرریاں عام کی جائیں۔
امیدواروں کے نام اہلیت، بھی ویب سائٹ پر دی جائے اور تقرری پانے والے خوش نصیبوں کے نام اور کوائف بھی دیے جائیں۔ اس وقت بعض اداروں کے مطابق 66 لاکھ سے زیادہ نوجوان بے روزگار ہیں۔ اور یہ تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ ہر برس یونیورسٹیوں سے ہزاروں گریجویٹ فارغ التحصیل ہو کر نکل رہے ہیں۔ نہ جانے کس طرح بھاری فیسوں کا انتظام کر کے وہ ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ دن رات پڑھتے ہیں۔ ان کا یہی خیال ہوتا ہے کہ ڈگری اعلیٰ گریڈ کے ساتھ ملتے ہی اچھے گریڈ کی نوکری مل جائے گی۔ ڈگری کے حامل نوجوانوں میں بیروزگاری مجموعی بیروزگاروں میں 3 گنا ہے تعلیم یافتہ خواتین میں بےروزگاری مردوں سے زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا میں آہ و فغاں کے جو مقامات ہیں وہاں یہ بےروزگار اپنی اہلیت اور کوائف آویزاں کرتے ہیں۔ 2008 میں بیروزگاری کی شرح 0.42 فیصد تھی۔ 2013 میں 2.95 فیصد۔ 2018 میں 4.08 تک جا پہنچی۔ 2020 میں 4.45 فیصد ہو گئی۔
پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں سر فہرست ہے جہاں 65 فیصد سے زیادہ نوجوان آبادی ہے جو کسی بھی مملکت کے لئے قابلِ فخر ہونی چاہئے لیکن اپنے اس اثاثے کو ہم نے اپنے لئے خطرناک بوجھ بنا لیا ہے۔ کیا ہماری یونیورسٹیاں وہ تعلیم اور تربیت نہیں دے رہی ہیں جس کی مارکیٹ میں ضرورت ہے۔ یا اس کی وجوہ کوئی اور ہیں؟ زیادہ بےروزگاری 20 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں ہے۔ اِس عمر کے نوجوان تو پاکستان کی زبردست معاشی اور سماجی طاقت بن سکتے ہیں۔ بےروزگاری کے خاتمے کے لئے بڑے منصوبوں کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو کسی نہ کسی ہُنر کی تربیت دی جائے۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل تربیت پر زور دیا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جن کے پاس ڈگری ہے، میرٹ بھی، ذہانت بھی، ہُنر بھی، ان کی خوش نصیبی میں حائل اسباب کی نشاندہی کی جائے۔ دوسرے مافیائوں کی طرح ایک ایمپلائمنٹ مافیا بھی سرگرم ہے۔ نوکریوں کی خرید و فروخت ہی ان کا ذریعۂ معاش ہے۔
وہ میرٹ والوں کو آگے نہیں آنے دیتے۔ انٹرویوز میں سب نوجوانوں کو مساوی مواقع نہیں ملتے۔ یہ مافیا پرائیویٹ مارکیٹ میں بھی پیش پیش ہے اور وفاقی صوبائی سیکرٹریٹوں کے باہر بھی منڈلاتی رہتی ہے۔ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا مملکت کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس کے لئے Placement Centre بنائے جائیں۔ سرکاری محکمے اور پرائیویٹ ادارے اہل نوجوانوں کو دورانِ تعلیم ہی اپنے لئے چُن لیں۔ بھرتی اور تقرری کا شفاف سسٹم قائم کیا جائے۔ نوکری نہ ملنے پر شکایات پر توجہ نہیں دی جاتی۔ محتسبِ اعلیٰ کے دفتر سے بھی جواب نہیں ملتا۔
میرے نوجوان مایوس ہیں۔ یعنی ہمارا مستقبل مایوس ہے۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ