عمران فاروق کی کہانی
یہ غالباً ستمبر 1999 کی بات ہے جب ایک صاحب جن کا پاسپورٹ پر نام کچھ اور درج تھا، ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترے۔ وہاں پہلے سے لندن پولیس اور امیگریشن حکام کو اطلاع تھی کہ یہ کسی دوسرے نام سے سفر کر رہے ہیں اور یہاں سیاسی پناہ کے لئے آ رہے ہیں۔ ان کے کچھ ساتھی اور وکیل بھی پہلے سے موجود تھے۔ چند گھنٹے انتظار کے بعد ان کا نیا اور اصلی پاسپورٹ بھی بن گیا اور ویزہ بھی لگ گیا۔ نام تھا ان کا ڈاکٹر عمران فاروق جو تقریباً آٹھ سال کی روپوشی کے بعد منظرِ عام پر آرہے تھے۔ وہاں سے انہیں سیدھے، متحدہ لندن کے 90 پر لے جایا گیا۔ جہاں بانی ایم کیو ایم اور دیگر رہنماؤں نے بڑی گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا۔
آج تقریباً 20 سال بعد پاکستان کی ایک عدالت میں ان کے قتل کا مقدمہ اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ اگر ان کی روپوشی آٹھ سال رہی تو 2010 میں لندن میں ہونے والے قتل کو بھی 10 سال گزر گئے۔ قتل کے محرکات کیا تھے، یہ شاید ایک حل طلب سوال ہے مگر وہ اپنے ہی بنائے ہوئے، نظم و ضبط اور سیاسی بیانیے کا شکار ہو گئے جیسا کہ دیگر پارٹی رہنما ہوئے۔ ان کا پہلا سیاسی سفر 1978 میں سندھ میڈیکل کالج، کراچی سے شروع ہوا جبکہ دوسرا سفر 1999 سے 2010 تک کا ہے۔ کہتے ہیں الطاف حسین کو بانی، اور قائدِ تحریک بنانے اور یہ لقب دینے میں بھی انہی کا کردار ہے۔
وہ پارٹی کے سخت گیر رہنما میں شمار ہوتے تھے مگر اگر کسی شخص نے سب سے زیادہ پارٹی کو وقت دیا اور سب سے آسانی سے رابطے میں رہا تو وہ بھی ڈاکٹر عمران ہی تھے۔ جنوری 1992 میں جب اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ جام صادق علی مرحوم نے بانی متحدہ کو مشورہ دیا کہ وہ فوراً لندن چلے جائیں تو متحدہ کے چیئرمین عظیم احمد طارق مرحوم اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق کو پارٹی چلانے کا مکمل اختیار مل گیا۔ یہ بات تو پہلے ہی طے ہو چکی تھی کہ قائد کوئی الیکشن نہیں لڑیں گے، نہ ہی پارٹی کے مرکزی رہنماؤں کی فیملی کو ٹکٹ ملے گا مگر تشدد کا جواب تشدد سے دینے کا دفاع کیا گیا اور یہ بات طے کی گئی کہ اگر جماعت اسلامی یا اسلامی جمعیت طلبا کے لوگ کالج اور جامعات میں ان کو سیاسی سرگرمی نہیں کرنے دے رہے تو جواباً لوگوں کو مطلع کیا جائے۔
بدقسمتی سے آنے والے برسوں میں زور، زبردستی کی سیاست اور علاقہ کنٹرول پارٹی پالیسی بن گئی جو آگے جا کر 1992 کے فوجی آپریشن کی وجہ بنی۔ یہ شروع تو مسلح افراد کے خلاف ہوا تھا اور اندرون سندھ 72 بڑی مچھلیوں کا خاتمہ تھا مگر مچھلی ہاتھ نہ آئی بلکہ مسلح گروہ کو ختم کرنے کے بجائے متحدہ کے سامنے ایک اور گروپ ایم کیو ایم ( حقیقی) کھڑی ہو گئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی برسوں تک دونوں طرف کے کئی سو کارکن اور کچھ رہنما ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کا شکار ہوئے۔ آپریشن شروع ہوا تو متحدہ کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ مرکزی رہنما روپوش ہو جائیں اور 90 کی ذمہ داری بزرگ اور خواتین کے سپرد کر دی گئی۔ ڈاکٹر عمران نے ان برسوں میں مکمل روپوشی اختیار کی۔ قیادت کے ایک آدھ رہنما کے علاوہ کسی کو نہیں پتا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔
رابطہ فون کے ذریعہ ممکن نہیں تھا لہٰذا پیغام رسانی کے دیگر ذرائع استعمال کئے گئے۔ اچانک کچھ ماہ بعد عظیم احمد طارق، خالد مقبول صدیقی اور کچھ دیگر رہنما منظرِ عام پر آنا شروع ہو گئے جس سے متحدہ کے اندر ایک نئی کشمکش شروع ہوئی۔ عمران فاروق اس کا حصہ نہیں بنے اور منظرِ عام پر آنے سے انکار کر دیا۔
یکم مئی 1993 کو عظیم طارق اپنے ہی گھر میں قتل کر دیئے گئے۔ 1994–95 میں پولیس آپریشن شروع ہوا تو ایم کیو ایم کے بےشمار مبینہ جرائم پیشہ افراد اور پارٹی کے سیاسی کارکن ماورائے عدالت مارے گئے۔ متحدہ نے اسے انسانی حقوق کا مسئلہ بنایا۔ ڈاکٹر عمران اس دوران بھی روپوش رہے جبکہ پارٹی لندن سے چلائی جاتی رہی۔
ستمبر 1999 میں منظرِ عام پر آنے کے ایک ماہ بعد نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور جنرل (ر) پرویز مشرف برسر اقتدار آگئے۔ یہ ایم کیو ایم کے لئے باعثِ نعمت ثابت ہوا۔ ایک انتہائی قریبی ذرائع نے بتایا کہ 2001 کے بعد خود مشرف نے بانیٔ متحدہ اور ان کے لندن کے ساتھیوں کو پاکستان آنے کا مشورہ دیا، یہاں تک کہ وہ انہیں اپنے ساتھ لانے کو تیار تھے کیونکہ ایم کیو ایم ان کی سیاسی ضرورت بن گئی تھی مگر کچھ لوگوں کو خوف تھا کہ معاملہ پلٹ نہ جائے اور قیادت فیصلہ نہ کر سکی۔ اس پورے عرصے میں ڈاکٹر عمران جو دوبارہ سرگرم ہو رہے تھے، پارٹی کے کنوینر بنا دیئے گئے۔ جن لوگوں نے ان کے ساتھ وہ وقت گزارا ہے وہ مانتے ہیں کہ وہ کام میں کچھ سست ہو گئے تھے اور 1982 والے ڈاکٹر نہیں رہے تھے مگر فیصلے وہ پھر بھی تنظیمی لحاظ سے سخت کرتے تھے۔
سنہ 2004 کے بعد سے کچھ معاملات میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ 2008 میں پی پی پی کی حکومت بنی اور آصف زرداری صدر بنے تو سندھ کے وزیر داخلہ نے متحدہ کے خلاف ایک نئے آپریشن کا آغاز کر دیا۔ اس سے قبل 12 مئی 2007 کو پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کے ذریعے کراچی میں جو کھیل کھیلا اس نے متحدہ کو ایک بار پھر 90 کی دہائی میں لاکھڑا کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پارٹی کا کنٹرول عمران فاروق کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ متحدہ جس کا سفر سندھ کے شہری علاقوں کے نوجوانوں کو داخلے اور نوکریاں دلوانے سے شروع ہوا تھا وہ تشدد اور مقدمات کی نذر ہو گیا۔ ایک مقدمے کا فیصلہ ہفتوں میں آنا ہے اور دوسرا ابھی لندن میں شروع ہونا ہے۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ