پاکستان کا مستقبل : ایک مضبوط علمی معیشت
پاکستان کا مستقبل اعلیٰ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، جدّت طرازی اور کاروباری صلاحیتوں پر مبنی مضبوط علمی معیشت کی ترقی میں مضمر ہے۔ ضروری ہے کہ غیر معیاری زرعی معیشت کے جال سے نکل کر ایک مضبوط علمی معیشت کی طرف گامزن ہوا جائے۔ اس کیلئے ہمیں ایک انتہائی ہنر مند افرادی قوت تشکیل دینےاور ایسی حکمتِ عملی متعارف کرانے کی ضرورت ہے جس سے اس افرادی قوت کی صلاحیتوں کو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی حامل مصنوعات کی تیاری اور برآمد کے لئے بڑی صنعتوں کے قیام کے لئے بروئے کار لا یا جا سکے۔ یہی سنگاپور، کوریا اور چین جیسے ممالک کی تیز رفتار ترقی کا راز ہے۔ ہمیں انجینئرنگ مصنوعات، ادویات، بائیو ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی کے اسٹوریج سسٹم، جدید دھات کاری، پریسیشن مینو فیکچرنگ، مائیکرو الیکٹرونکس، دفاعی مصنوعات، جہاز سازی، آٹو موبائل مینو فیکچرنگ اور اس طرح کی معیاری مصنوعات کی تیاری کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ پاکستان نے ہمیشہ کم آمدنی والے شعبوں پر ہی توجہ مرکوز کی ہے جس نے ہمیں فی کس آمدنی کے لحاظ سے بہت نچلے درجے پر پہنچا دیا ہے۔
علمی معیشت کے لئے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے، بین الضابطہ شعبوں میں کام کرنے اور تقریباً ہر شعبے میں رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں کو تیزی سے اپنانے کی صلاحیتوں کے ساتھ بہترین تکنیکی مہارتوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کی مہارتیں جو آج کے نئے ڈیجیٹل دور میں مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ آف تھنگز کاروبار کو تیزی سے تبدیل کر رہی ہیں، خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک علمی معیشت کو چلانے کے لئے چار بنیادی ستونوں کی ضرورت ہوتی ہے، پہلا ستون، ایک ہنر مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت کی دستیابی، ملازمین کا اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ تربیت یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ، پیچیدہ مسائل حل کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو نئے چیلنجوں کے مطابق ڈھالنے کا اہل ہونا ضروری ہے۔ دوسرا ستون جدید معلوماتی اور مواصلاتی ٹیکنا لوجی ذرائع تک رسائی ہے تاکہ تازہ ترین معلومات، نئی پیش رفتوں اور موثر طریقے سے اس کے استعمال کو یقینی بنایا جاسکے۔
تیسرا ستون تجارتی اداروں اور صنعتوں کے ساتھ ساتھ ملک میں ایک موثر جدت طرازی کا نظام ہے تاکہ دانشور جو اثاثہ ہوتے ہیں کو محفوظ رکھا جا سکے اور نئے خیالات کو جدید مصنوعات اور عمل میں تبدیل کرنے کے لئے نظام فراہم ہو۔ چوتھا ستون قومی ماحولیاتی نظام کا قیام ہے جس میں جدت طرازی پروان چڑھ سکے۔ اس کے لئے اچھی قیادت، یعنی ماہر وفاقی وزرا ء اور سیکرٹریوں کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ ادراک رکھتے ہوں کہ کس طرح علمی معیشت کی طرف بڑھا جا سکتا ہے تاکہ ایک قابل ماحولیاتی نظام قائم کیا جا سکے۔ ایک مضبوط علمی معیشت کی ترقی کی شروعات صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کی گئی تھی جب سال 2000 میں وفاقی وزیر سائنس کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد میں نے انہیں سائنس اور تعلیم کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے پر راضی کیا بعد ازاں ہائر ایجوکیشن کے بانی چیئرمین کی حیثیت سے میری تقرری کے بعد، بہت بڑی تبدیلیاں رُونما ہوئیں جنہیں اقوامِ متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی اداروں کی طرف سے بے حد سراہا گیا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پروگراموں کا جائزہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سائنس، ٹیکنالوجی اور ترقی کے چیئرمین پروفیسرمائیکل روڈ نے لیا۔
انہوں نے متعدد بار پاکستان کا دورہ کیا اور 2008 میں پاکستان کے ایک اخبار میں ایک تفصیلی مضمون لکھا جس میں میری پالیسیوں کی تعریف کی، ایچ ای سی کی قیادت کے طور پر میرا یہ رویہ تھا کہ’’معیار مقدار سے کہیں زیادہ اہم ہے‘‘۔ نیچر، دُنیا کا معروف سائنسی جریدہ ہے، اِس نے چار اداریے تحریر کئے جن میں پاکستان کے اس شعبے میں کئے جانے والے اقدامات کو سراہا گیا۔ دُنیا کی سب سے مشہور سائنسی سوسائٹی، دِی رائل سو سائٹی (لندن) نے ’’اے نیو گولڈن ایج‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کی پالیسیوں کودوسرے ترقی پذیر ممالک کے لئے بہترین مثال قرار دیا۔ ہم نے سائنسدانوں کی تنخواہوں کے ڈھانچے میں اہم تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ ایک نئے ٹینور ٹریک نظام کے تحت پروفیسروں کی تنخواہوں میں 4 سے 5 گنا اضافہ کیا گیا جو وفاقی وزرا کی تنخواہوں سے چار گنا زیادہ تھا، جامعہ فیکلٹی ممبروں کے گریڈ میں اضافہ کیا گیا اور جامعہ کے اساتذہ کو 75 فیصد ٹیکس میں چھوٹ بھی دی گئی۔ ادبی سرقہ کو روکنے کے لئے ایک سوفٹ وئیر متعارف کروایا گیا جس کے ذریعے تمام تحقیقی مقالوں کی جانچ پڑتال کی جانے لگی۔
اس طرح کے دیگر اقدامات کی وجہ سے پاکستانی جامعات کی تحقیقی پیداوار میں اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ جہاں ہم 2000 میں بین الاقوامی جرائد میں ریسرچ کی اشاعت کے معاملے میں ہندوستان سے 400 فیصد پیچھے تھے، ہم نے 2017 میں ہندوستان کو پیچھے چھوڑ دیا اور 2019 تک ہم ہندوستان سے تقریباً 25 فیصد آگے ہو گئے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم کو 22 جولائی 2006 کو میرے اور HEC کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی جس کے بارے میں27 جولائی 2006 کو ہندوستان کے اخبار ہندوستان ٹائمز میں ایک تفصیلی خبر شائع ہوئی جس کی سُرخی تھی ’’ہندوستان کو پاکستان کی سائنس میں ترقی سے خطرہ‘‘۔ موجودہ حکومت نے وزیر اعظم کی زیر صدارت علمی معیشت پر ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جس کا، میں وائس چیئرمین ہوں، ایک علمی معیشت کی طرف گامزن سفر جو 2000 میں شروع ہوا تھا دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن
(کالم نگار سابق وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اورسابق چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ہیں)
بشکریہ روزنامہ جنگ